خطے کی اچانک بدلتی سکیورٹی صورتحال اور پاکستان
تحریر : ملک علی رضا
افغانستان سے امریکی اتحادی فوجوں کے اچانک انخلا کے بعد خطے کی موجودہ سکیورٹی حالات خاصے غیر متزلزل دیکھائی دے رہیں ۔ ایک طرف امریکہ کے بھاگ نے سے افغانستان میںطالبان کی پیش قدمیاں غیر معمولی بڑھ گئی ہیں اور متعدد علاقوں پر قبضہ بھی جما لیا گیا ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے موجوہ پیش قدمیاں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں جو اب بج چُکی ہیں ۔ جن میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان شامل ہے ۔
حالیہ واقعات کے بعد ، پاکستان میں بھی خاصی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پاکستان اب کی بار کیا کرنے جا رہا ہے؟ ایک طرف پاکستان نے ایک بار پھر دنیا کو بتا دیا کہ کسی قسم کی جنگ کے لیے پاکستان کسی بھی دوسرے ملک کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا ۔
دوسری طرف افغان طالبان نے بھی اس چیز کی یقین دہانی کروائی ہے کہ طالبان بھی افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ مہاجرین کا ہے اگر افغان طالبان اسی طرح اپنی کاروائیاں کرتے رہے تو پاکستان میں اچھی خاصی تعداد میں افغان مہاجرین آ سکتے ہیں ، اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ افغان مہاجرین کی شکل میں پاکستان کے دشمن اپنے دہشت گرد بھی پاکستان میں بھیجوا سکتے ہیں جیسا کہ پہلے بھی بھارت نے ایسے کام سر انجام دیے ہیں۔
بھارت کو اس قدر خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ اس کے سارے بنے بنائے منصوبے اب مودی سرکار اور انکی ایجنسی " را " کو ناکام ہوتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ کندھار کی جانب طالبان کی پیش قدمی نے بھارتی حکام کو خود اپنی ناکامی کے قریب تر ہوتے دیکھائی دے رہا ہے ۔
بھارت نے بھی بظاہر اپنے سفارتخانے کی حفاظت کے لیہے بھاری تعداد میں اپنے فوجی کابل بلوا لیے ہیں جو کہ بھاری مقدار میں فوجی ساز و سامان کے ساتھ لیس ہیں، پڑوسی ممالک اس چیز پر بھی سوالات کر رہے ہیں کہ امریکہ اور اسکے اتحادی جب امریکہ سے بھاگ رہے ہیں تو بھارت وہا ں اپنی فوجی طاقت کیوں جمع کر رہا ہے ؟
اس تمام صورتحال میں ایک چیز جو مجھے لگ رہی ہے کہ امریکہ نے اپنے بھاگنے کے بعد بھارت کو اپنے نائب کے طور وہاں جانے کا کہا تا کہ جو کام بھارت ، پاکستان کیخلاف پہلے چُپ کےکر رہا تھا اب وہ کام مزید تیزی کے ساتھ ہونگے تا کہ کسی طرح سے پاکستان بیک فٹ پر لایا جائے۔
امریکہ بہت پہلے ہی سے بھارتی اثرو رسوخ کو افغانستان میں بڑھا چکا ہے وہ بھِی اس لالچ پر کہ بھارت افغان سرزمین استعمال کر کے پاکستان مخالف پروپیگنڈہ اور دہشت گرد کاروائیاں با آسانی کر سکے۔ امریکہ کے پیٹ میں خاصہ درد اس وجہ سے بھی ہے کہ اب کی بار پاکستان نے اسے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی اور وی یہی چاہے گا کہ کسی طرح سے پاکستان سے بدلہ لیا جائے، ایک فیٹف کی صورت میں پہلے ہی پاکستان پر تلوار لٹک رہی ہے وہ بھی کچھ ایسی چیز کا شاخسانہ لگتاہے کہ پاکستان اب اپنی خودمختاری کے فیصلے خود کر رہا ہے اور یورپی ممالک کی پاکستان کو کوئی ضرورت نہیں ۔
اہم بات یہ ہے کہ یہاں افغان حکومت کا کردار بہت ہی عجیب و غریب ہے ، اشرف غنی کابینہ کو یہ بات سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ اس معاملے پر وہ کیا کریں اور کس طرح اس معاملے کو ہینڈل کریں۔یہی وجہ سے کہ افغان حکومت کی ناقص پالیسیوں کیوجہ سے افغانستان عوام بھی خاصی پریشان ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اوروزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی افغانستان کے مسلے پر مکمل حکمت عملی کیساتھ عملی میدان میں اُترنے کی ہدایات کی ہوئی ہیں اور دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے بھی نجی ٹی وی چینلز کو اپنے الگ الگ انٹرویو میں بتایا کہ افغانستان کے مسلے پر پاکستان کے سکیورٹی ادارے مکمل اور کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور کسی بھِی خطرے کے پیش نظر مکمل اعتماد کیساتھ ملکمی خودمختاری کی حفاظت کے انتظامات کو یقینی بنایا جائےگا، پاک فوج اور ملکی سکیورٹی کے ادارے ہمہ وقت تیار ہیں ۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ امریکہ نے افغانستان نے نکلنے میں بہت جلد بازی سے کام لیا جس سے خطے کی سکیورٹی صورتحال کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں لیکن پاکستان اس تمام صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور اپنے طور پر تمام اقدامات جاری رکھے ہوئےہے۔
اس وقت ملک کے اند ر تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ملکی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائےگا، حال ہی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی قطر کا دورہ کیا اور وہاں افغان طالبان سمیت افغان حکومت اور افغانستان کے سیاسی اور سکیورٹی صورتحال میں قطر کے کردار بھی بات چیت ہوئی ۔ قطر نے پاکستان کی کاوشوں کا بھی شکریہ ادا کیا ۔
پاکستان کے دوسرے ممالک سے رابطے جارے ہیں اور ر قسم کے اقدامات جو ضروری ہیں وہ کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے افغان مسلے کے حل کو مذاکرات سے حل کرنے پر زور دیتا رہا اور اس معاملے کے مکمل حل تک پاکستان کا یہی موقعف رہے گا۔
یہاں ایک بات اس یقین کیساتھ کہتا چلوں کہ جہاں امریکہ اور اسکی اتحادی فوجیں 20 سالوں میں اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی اور طاقت رکھنے کے بعد بھی اپنا اسر و رسوخ قائم نہ کر سکا اور بھاگ گیا وہاں پاکستان ان خطرات سے نمٹنے کے ہمہ وقت تیار ہے اور انشا اللہ پاکستان ہر قسم کے تمام خطرات سے باحسن طریقہ کار سے نمٹنے کا حوصلہ اور طاقت رکھتا ہے۔
Comments