پاکستان، افغانستان اور طالبان
پاکستان، افغانستان اور طالبان تحریر ملک علی رضا دوستو افغانستان سے امریکہ اور اتحادی افواج کے یکم مئی سے انخلا کے اعلان کے بعد سے متعدد اضلاع کی جانب طالبان کی پیش قدمی جاری ہے۔افغانستان میں طالبان نے اب تک ملک کے 34 صوبوں میں سے 20 صوبوں کے ہیڈ کوارٹرز کے گرد گھیرا تنگ کر لیا ہے۔ طالبا ن اپنی اسلامی ریاست بنانے کے لیے افغانستان نے آدھے سے زیادہ حصوں پر قابض ہوچکے ہیں۔
طالبان کے قبضے میں آنے والے اکثر علاقوں کی سٹریٹیجک اہمیت اس لیے زیادہ ہے کیونکہ یہ ان اہم شہراہوں پر واقع ہیں جو کابل کو ملک کے شمالی، جنوبی اور مغربی علاقوں سے جوڑتی ہیں۔اکثر شہر جن کا طالبان نے محاصرہ کیا ہے وہ ملک کے شمال میں واقع ہیں جہاں افغانستان کی سرحدیں اپنے وسط ایشیائی ہمسایوں کے ساتھ ملتی ہیں۔
طالبان نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ملک کے جنوب اور مشرق میں واقع اہم شہروں کے گرد اپنے آپریشنز کا دائرہ وسیع کر دیا ہے اور اب انھوں نے افغان دارالحکومت کابل کے گرد بھی گھیرا تنگ کر دیا ہے۔
سنہ 1996 میں طالبان کی ’جائے پیدائش‘ کہلانے والے جنوبی صوبے قندھار کے بعض اضلاع پر طالبان پہلے ہی کنٹرول کرنے کا دعویٰ کر چکے ہیں جبکہ ملک کے دس بڑے شہروں میں سے کم از کم تین شہروں قندھار، ہرات اور غزنی کے گرد طالبان نے گھیرا تنگ کر لیا ہے.
طالبان سپین بولدک، چمن سرحدی کراسنگ جو قندھار کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے ملاتی ہے وہاں افغانی افواج کنٹرول چھین لیا ہے اور اب مکمل طور پر بارڈر ایریا طالبان کےقبضے میں ہے۔جیسے ہی اس علاقے کا قبضہ طالبان نے حاصل کیا پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارتی سرگرمیاں اور ہر قسم کی آمدورفت بند کر دی گئی ، تاہم دو دن مذاکرات کےبعد طالبان قیادت نے پاکستان سے ملحقہ سپین بولدخ بارڈر کھول دیا گیا۔ ادھر پاکستان نے بھی موجودہ خطرات کے پیش نظر افغانستان نے ملحقہ بارڈرز پر سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے اور بارڈر پر چیکنک کا عمل بھی سخت کر دیا گیا ہے۔ ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار نے بھی اس معاملے کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے قوم کو مکمل یقین دہانی کروائی ہے کہ کسی بھی قسم کی خطرے سے نمٹنے کے لیے افواج پاکستان ہمہ وقت تیار ہیں۔
دوسری جانب افغانستان کے وائس پریذیڈنٹ امراللہ صالح نے پاکستان کے حوالے سے بیان دیا اس حوالے سے کچھ تحقیقات ہوئیں تو یہ پتہ چلا ہے کہ جب افغانستان کی طرف سے یہ رابطہ کیا گیا کہ طالبان نے پاکستان سے ملحقہ بارڈر ایریا پر قبضہ کیا ہے وہ طالبان سے قبضہ واپس لینے کے لیے افغان حکومت نے پاکستان کی آرمی سے بات چیت کی کہ ہم طالبان پر حملہ کرینگے تو ہو سکتا ہے
پاکستان کی حدود پر بھی اس کے اثرات ہوں تو اس پر پاکستان نے صاف کہہ دیا کہ اگر پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی کی گئی تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا اسی لیے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اگر آپ نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی تو اس پر ایکشن لیا جائے گا کیونکہ بارڈر ایریاز میں کسی بھی طرح سے پاکستانی حدود کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اس کے بعد افغان حکومت کی جانب سے جو غیر ذمہ دارانہ بیان آیا اس لیے پاکستان کو اس طرح کا بیان دے کر نیچا دکھانے کی کوشش کی جائے گی ۔
پاکستان میں ہونے والے حالیہ واقعات و معاملات کو اگر آپ دیکھیں تو یہ بہت سارے معاملات جو ہیں وہ نظر آرہے ہیں کہ جس میں پاکستان کے خلاف بہت ساری چیزیں جس طرح بھی افغان نائب صدر کی بیٹی کا اغواہ کیا گیا اور پاکستان کے خلاف ایک منظم سازش کی گئی اس میں بھی بڑے خدشات پائے جاتے ہیں ۔پاکستان کے دشمن پاکستان میں سی پیک کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں پاکستان کی ترقی ہو رہی ہے اس کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں دوسرا جو پاکستان خطے میں امن کی کوششیں کر رہا ہے ان کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔
پاکستان اس وقت اچھی کوشیشیں کر رہا ہے تاکہ خطے میں امن ہو جائے لیکن پاکستان کے جو اس وقت معاملات ہیں وہ پاکستان کو بیرونی خطرات ہیں اور اندرونی خطرات ہیں جن پر پاکستان کڑی نظر رکھَے ہوئے ہے۔ پاکستانی افواج اور سکیورٹی ادارے کسی بھی قسم کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں ۔ اور پاکستان کی عوام کا اپنی افواج اور حکومت پر مکمل اعتماد ہے کہ ملکی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔۔
Comments