دَیلُولَر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبداللہ غازی
پندرھویں صدی عیسوی میں سلطان محمد فاتحؒ کے ہاتھوں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد، سلطنت عثمانیہ مضبوط بنیادوں پر مستحکم ہو چکی تھی۔ عثمانی افواج کی مسلسل فتوحات کے باعث مشرقی یورپ کی کئی ریاستیں اس کی باجگزار بن چکی تھیں۔انہی میں سے ایک ریاست ولاچیہ بھی تھی۔ جس کے حکمران ولاڈ دوم کی وفات کی بعد اس کے بیٹے ولاڈ تپش کو سلطان کی جانب سے ریاست کا نیا حکمران مقرر کیا گیا۔
ولاڈ سوم اقتدار سنبھالنے کے بعد چند سال تک سلطنت عثمانیہ کا وفادار رہا۔ لیکن جلد ہی اس نے اپنے پر پُرزے نکالنے شروع کر دیے۔اس کی ظالم فطرت کو جب اقتدار کی قوت ملی تو ولاچیہ میں ظلم و ستم کا ایک خوفناک اور خونی سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ لوگوں کو سخت اذیتیں دے کر مارتا تھا اور اس کام سے وہ شیطان صفت انسان محظوظ بھی ہوتا تھا۔
اسے سب سے زیادہ لذت لوگوں کے جسموں میں میخیں ٹھونک کر مارنے میں ملتی تھی۔ سینکڑوں لوگوں کو اس نے اسی اذیت ناک طریقہ سے قتل کیا، اور یہ ظالم شخص تڑپتی ہوئی لاشیں دیکھ عجیب سی راحت محسوس کرتا تھا۔ اپنے اس شیطانی فعل کی وجہ سے یہ "ڈریکولا" کے نام سے مشہور ہوگیا۔ لوگوں کو قتل کرنے کے اس ظالمانہ طریقے کی وجہ سے لوگ اسے Vlad The Impaler یعنی (میخیں ٹھونکنے والا)بھی کہتے تھے۔
جب سلطان محمد فاتحؒ کو ولاڈ کی اس شیطانی درندگی کا علم ہوا تو انہوں نے بذریعہ قاصد اسے اس ظلم و ستم سے منع کرتے ہوئے آئندہ کے لئے تنبیہ کی۔ لیکن ولاڈ اپنے تکبر میں اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ اس نے سلطانی ایلچی کا سر قلم کر کے واپس بھیج دیا۔ اس قبیح فعل پر سلطان بھڑک اٹھے اور ولاڈ کی سرکوبی کے لئے دَیلُولر کو روانہ کیا۔
یہ دیلولر کون تھے؟
یہ انتہائی جنگجو، دلیر اور نڈر شہسواروں پر مشتمل دستے تھے جو میدان جنگ میں اپنی برق رفتار گوریلا حکمت عملی سے دشمن کے چھکے چھڑا دیتے۔ دیلولر کو ہمیشہ لشکر کی اگلی صفوں میں رکھا جاتا تھا۔ اور جونہی انہیں حملے کا حکم ملتا، وہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح دشمن کی طرف لپکتے اور کسی زخمی شیر کی طرح دشمن پر حملہ آور ہوتے۔ ان کے حملوں میں اس قدر تُندی، بے خوفی اور غضبناکی ہوتی کہ دشمن کے ہوش اڑ جاتے۔
دیلولر لفظ دیلی کی جمع ہے، جس کا مطلب ہے نڈر، بے باک، دلیر، سرپھرا۔
یہ ہمیشہ جانوروں کی کھالوں پر مشتمل لباس پہنتے اور پشت پر بڑے بڑے پَر باندھتے تھے۔ ان کا حلیہ ایسا ہوتا تھا کہ دشمن پر دہشت طاری کر دیتا۔ وہ ہلکے ہتھیار لیکن تیز رفتار گھوڑے رکھتے تھے تاکہ نقل و حرکت میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔
ان دستوں کو پندرھویں صدی کے نصف میں تشکیل دیا گیا تھا، تقریباً چار سو سال بعد 1829ء میں سلطان محمود ثانی کی عسکری اصلاحات کے نتیجے میں انہیں تحلیل کر دیا گیا۔